اسلامی سال کا دسواں مہینہ ۔۔۔ شوال المکرم
شوال کی وجہ تسمیہ:اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ''شَول ''سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (فضائل ایام و الشہور ، صفحہ ٤٤٣،غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٥، مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)
اور اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلئے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ٤٤٤، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان (مشکوٰۃ صفحہ ١٨٣)
جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ''مغفور'' ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)
عید کے دن شیطان کا رونا
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)
عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسلئے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لئے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لئے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے ، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے ، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں ۔ (غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٤ اور ٤٠٥)
عید منانے کا اسلامی طریقہ
عید الفطر کے مستحب کام :
(١) حجامت بنوانا (٢) ناخن ترشوانا (٣) غسل کرنا (٤) مسواک کرنا (٥) اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو ۔ (٦) ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا ۔ (٧) خوشبو لگانا۔ (٨) فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ (٩) نبی کریم اکی بارگاہ میں بصد خلوص درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا (١٠) عید گاہ میں جلدی جانا (١١) عید گاہ کو پیدل جانا (١٢) واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق پڑھتے ہوئے جانا (١٣) نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا۔ (١٤) تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے۔ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا۔ (١٥) نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا۔ (١٦) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ٣٠٠ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کا انمول وظیفہ:
حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے عید کے دن تین سو بار یہ ورد پڑھا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ (اللہ پاک ہے اور اس کی حمد ہے) پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٢)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید:
حضرت ِ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نمازیں ادا کی ہیں اور ہر دفعہ انہیں اذان اور اقامت کے بغیر ہی ادا کیا ۔ (مسلم شریف )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ عید کی نماز ہمیشہ جامع مسجد کے باہر یا کسی اور جگہ کھلے میدان میں پڑھنے کا حکم دیتے، البتہ ایک دفعہ جب بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ہی نماز ادا کرلی۔ (بخاری شریف)
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ کیلئے روانہ ہوتے تو راستے میں اور نمازِ عید شروع کرنے سے قبل تک تکبیر پڑھتے رہتے ، اسے بلند آواز سے پڑھتے، اور واپس ہمیشہ دوسرے راستہ سے آتے، لیکن واپسی کے وقت تکبیر نہیں پڑھتے۔ (بخاری شریف، سننِ کبریٰ بیہقی)
رسول اکرم محبوبِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالی عنہ کو (جب وہ نجران میں تھے ) خط لکھا کہ عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھاؤ اور عید الفطر کی دیر سے اور اس کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو ۔ (مسند امام شافعی)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی عید:
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو عید کے دن دیکھا، اس کی قمیض پرانی تھی، تو رو پڑے۔ اس نے کہا: آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا: اے بیٹا ! مجھے خطرہ ہے عید کے دن تیرا دل ٹوٹ جائے گا، جب بچے تمہیں یہ پُرانی قمیض پہنے دیکھیں گے۔ اس نے کہا: دل اس کا ٹوٹتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو، یا اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ کی رضا کے باعث اللہ تعالیٰ مجھے سے راضی ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روپڑے اور اسے سینہ سے لگالیا اور اس کے لیے دعا کی۔ (مکاشفۃ القلوب ، صفحہ ٦٩٣)
عید کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا آپ اس وقت بھوسی کی روٹی کھارہے تھے ، اس نے عرض کیا کہ آج عید کا دن ہے اور آپ چوکر (بھوسی) کی روٹی کھارہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا آج عید تو اس کی ہے جس کا روزہ قبول ہو، جس کی محنت مشکور ہو، اور جس کے گناہ بخش دیے گئے ہوں ۔ آج کا دن بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے کل بھی ہمارے لئے عید ہوگی اور ہر دن ہمارے لئے عید کا دن ہے جس دن ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤١١)
اہم نکتہ:
عید کی نماز سے فارغ ہوکر لوگ عید گاہ سے لوٹتے ہیں ، کوئی گھر کو جاتا ہے ، کوئی دکان کو اور کوئی مسجد کو تو اس وقت یہ حالت دیکھ کر مسلمان کو چاہیے کہ اس منظر اور کیفیت کو یاد کرے کہ اس طرح لوگ قیامت میں جزا و سزا دینے والے بادشاہ کے حضور سے جنت اور دوزخ کی طرف لوٹ کر جائیں گے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (پارہ ٢٥،سورۃ شوریٰ، آیت ٧)
اور تم ڈراؤ اکٹھے ہونے کے دن سے جس میں کچھ شک نہیں ، ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں (ترجمہ کنز الایمان ، غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٢)
اسلامی تہوار مثالی معاشرے کے قیام کی ضمانت
اقوامِ عالم مختلف مواقع پر خوشیوں کے اظہار کیلئے اجتماعی طور پر تہوار مناتی ہیں ، یہ تہوار مذہبی روایات اور قومی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک امر مسلّمہ ہے کہ اسلامی تہوار محض تفریحِ طبع کیلئے منعقد نہیں ہوتے بلکہ اسلامی معاشرے کو خوشحالی اور فلاحی بنانے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے جتنے تہوار مناتے ہیں اسے ہر طرح کے مادّی سازو سامان سے معمور رکھتے ہیں ۔عیش و عشرت، راگ و موسیقی، نغمہ و سرود، شراب و شباب اور میلوں تماشوں میں محو و مگن ہوتے ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ مسلمانوں کے تمام تہوار ، دینی شعار کی طرح صرف ذاتی خوشی کیلئے نہیں بلکہ اللہ ل کی رضا کیلئے ہوتے ہیں ، ان تہواروں کا انعقاد اللہ ل اور اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احکام پر عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اسی لیے تہوار کاآغاز ہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان اور اس کے ذکر و اذکار سے ہوتا ہے۔ اسلامی تہوار غم گساری بھی سکھاتا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے معاشی استحکام کیلئے ایک متمول مسلمان اپنا کردار ادا کرے۔ بین المسلمین مواخات کے رشتے اسلامی تہوار کے ذریعے مضبوط اور مربوط ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے سے معانقہ کرنا ، مصافحہ کرنا ، رمضان کی مبارکباد پیش کرنا ، تراویح و تسبیحات کی قبولیت کی ایک دوسرے کے حق میں دعا کرنا ، ایک دوسرے کے حق میں مغفرت کی دعا کرنا ، تحائف کا تبادلہ کرنا اور طعام کی دعوت دیناوغیرہ، ایک اخلاقی ،مثالی اور فلاحی معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتے ہیں ۔یہ معمولات و عادات زندہ مسلمانوں کے درمیان ہی نظر نہیں آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے تہوار اپنے پیش رو مرحومین کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ، نماز ِ عید کی ادائیگی کے بعد اور برادرانِ اسلام سے ملاقات کے بعد قبرستان جانا اور مسلمان مرحومین کے حق میں دعائے مغفرت کرنا ، سنّت ِ متواترہ ہے۔
حضور غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ''مسلمان کی عید ، طاعت و بندگی کی علامات کے ظاہر ہونے سے ہے، گناہوں اور خطاؤں سے دوری کی بنیاد پر ہے ، سیأات کے عوض حسنات (نیکیوں ) کے حصول اور درجات کی بلندی کی بشارت ملنے پر ہے ، اللہ تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے خلعتیں ، بخششیں اور کرامتیں حاصل ہونے کے باعث ہے، مسلمان کو نورِ ایمان سے معمور سینہ کی روشنی ، قوتِ یقین اور دوسری نمایاں علامات کے سبب دل میں سکون پیدا ہوتا ہے پھر دل کے اتھاہ سمندر سے علوم و فنون اور حکمتوں کا بیان زبان پر رواں ہوجانے سے عید کی حقیقی مسرتیں حاصل ہوتی ہیں ۔'' (غنیہ الطالبین ، صفحہ ٤١٠ ، ٤١١)
شوال کے چھ روزے:
شوال میں (عید کے دوسرے دن سے ) چھ دن روزے رکھنا بڑا ثواب ہے جس مسلمان نے رمضان المبارک اور ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ، سِتًّا مِّنْ شَوَّالِ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)
جس آدمی نے رمضان شریف کے روزے رکھے۔ اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے۔
نوٹ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ''تمام عمر روزے رکھنے'' کا مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے علاوہ ہر ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے جائیں تو تمام عمر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ پھر یہ روزے اکٹھے رکھے جائیں یا الگ الگ ، ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے۔ یہی حنفی مذہب ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٤٧بحوالہ لمعات حاشیہ مشکوۃ صفحہ ١٧٩)
شوال میں ایامِ بیض کے روزے
علاوہ ازیں ماہِ شوال میں متذکرہ چھ ٦ روزوں کے علاوہ ١٣، ١٤، ١٥ چاند کی تاریخوں (ایامِ بیض) میں اسی طرح روزے رکھے جاسکتے ہیں جیسا کہ دیگر مہینوں میں انہی ایام میں رکھتے ہیں ۔اس حوالے سے صحاح ستّہ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ شریف ) میں کئی روایات ملتی ہیں ۔
شوال المکرم میں وفات پانے والے مشہور اولیاء و بزرگانِ دین رحمہم اللّٰہ
یکم شوال المکرم
٭ حضرت ابو خذافہ احمد بن اسمعیل سہمے ۔۔۔۔۔۔٢٥٠ھ ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری (صاحبِ صحیح) ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ھ ٭ حضرت شیخ عبداللہ محمد طاقی ۔۔۔۔۔۔ ٤١٦ھ ٭ حضرت خواجہ عارف ریوگری ۔۔۔۔۔۔ ٦١٦ھ/٧١٥ھ ٭ حضرت علاؤالدین صابری ثانی عرف موج دریا ۔۔۔۔۔۔٧٢٣ھ ٭ حضرت ظہور حاجی ظہور۔۔۔۔۔۔٧٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ میر حمزہ بن امیر کلاں ۔۔۔۔۔۔٨٠٨ھ ٭ حضرت سید سرور دین حضوری ۔۔۔۔۔۔ ١١٠٠ھ ٭ حضرت ابو سعید نقشبندی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٥٠ھ ٭ علامہ ماجد علی حنفی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٥٢ھ
٢ شوال المکرم
٭ حضرت ابوعلی رودباری ۔۔۔۔۔۔٣٢٢ھ ٭ حضرت ابو بکر زین الدین خوانی۔۔۔۔۔۔٨٣٨ھ ٭ مخدوم سید علاؤالدین سنڈیلہ
٣ شوال المکرم
٭ حضرت سیدی انوار الحسین عبدالباقی بن قانع۔۔۔۔۔۔٣٥١ھ ٭ حضرت ابوالمجد مجدود بن آدم معروف بحکیم سنائی ۔۔۔۔۔۔٥٢٥ھ ٭ حضرت ابو صالح صفات نوری احمر قانی ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٩ھ ٭ حضرت شیخ حسوتیلی ۔۔۔۔۔۔١٠١٢ھ ٭ حضرت خواجہ محمد صدیق کشمی ۔۔۔۔۔۔١٠٥١ھ ٭ حضرت خواجہ محمد نقشبندی سیف زمان ۔۔۔۔۔۔ ١١٥٣ھ ٭ حضرت مولوی محمد حسین ۔۔۔۔۔۔١٣٤٥ھ ٭ حضرت مخدوم سید شوکت حسین گیلانی (اولاد حضرت موسیٰ پاک شہید، رہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٤٠٢ھ
٤ شوال المکرم
٭ حضرت سید شاہ جلال راضی بخاری گلسرخ۔۔۔۔۔۔٦٥٨ھ٭ حضرت دیوان محمد شہاب الدین ۔۔۔۔۔۔٩١٧ھ ٭ حضرت شیخ رکن الدین صابری گنگوہی۔۔۔۔۔۔٩٨٣ھ ٭ حضرت میاں جیو نور محمد صابری جہنجہانوی ۔۔۔۔۔۔١٢٥٩ھ ٭ حضرت مولوی کریم اللہ دہلوی۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ ٭ مولوی سائیں غلام محمد قادری المعروف پیر جلو آنوی۔۔۔۔۔۔١٣٧٥ھ ٭ حضرت شاہ کاظم علی ٭ سید بدرالدین رفاعی
٥ شوال المکرم
٭ حضرت سیف الدین عبدالوہاب بن غوث الاعظم۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭ حضرت شیخ شرف الدین المعروف بہ مصلح الدین محمد سعدی۔۔۔۔۔۔٦٩١ھ ٭ حضرت سراج الدین عثمان اخی چراغ غنی الارواح۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد غوث بالا پیر۔۔۔۔۔۔٩٥٩ھ ٭ حضرت شیخ باقی اکبر آبادی۔۔۔۔۔۔ ١٠٦٥ھ ٭ حضرت شیخ محمد اسمٰعیل مدرس عرف میاں وڈا سہروردی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٥ھ ٭ حضرت شاہ کریم عطا چشتی نظامی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٨ھ ٭ حضرت خواجہ محمد اکبر علی۔۔۔۔۔۔١٣٩١ھ
٦ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ عبدالرزاق بن غوث اعظم۔۔۔۔۔۔٦٢٣ھ٭ حضرت ابو اسحق ابراہیم بن غوث الاعظم ۔۔۔۔۔۔٦٢٣ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین احمد یحییٰ منیری۔۔۔۔۔۔٧٨٢ھ ٭ حضرت شیخ امین الدین ٭ حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی ۔۔۔۔۔۔ ١١٣٦ھ ٭ حضرت مولوی سخاوت علی جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٤ھ٭ حضرت خواجہ عثمان ہاروَنی
٧ شوال المکرم
٭ حضرت اویس قرنی ص۔۔۔۔۔۔٣٩ھ٭ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٩ھ ٭ عرس آسی غازی پوری
٨ شوال المکرم
٭ حضرت سوید بن سعید ہروی۔۔۔۔۔۔٢٤٠ھ
٩ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ ابو العباس بغدادی۔۔۔۔۔۔٣٥٧ھ ٭ حضرت شیخ معمر چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٤٢٥ھ ٭ حضرت خواجہ خانون انکوری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٩٨ھ ٭ حضرت شیخ محمد سلطان مرگ نینی۔۔۔۔۔۔١١٥٨ھ ٭ عزیز اللہ مشاہدی بنگلہ دیشی
١٠ شوال المکرم
٭ حضرت خواجہ احمد کھتو دہلوی۔۔۔۔۔۔٨٥٩ھ ٭ مولانا احسان علی بہاری٭ استاذ العلماء یادگار اسلاف حضرت مفتی محمد عبد اللہ نعیمی شہید (بانی دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ) ۔۔۔۔۔۔١٤٠٢ھ
١١ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ زبیر بن واحد۔۔۔۔۔۔١١٣ھ٭ حضرت ابو سعید احمد مالینی ۔۔۔۔۔۔٤١٢ھ ٭ حضرت خواجہ بہاؤالدین۔۔۔۔۔۔٦٢٨ھ٭ حضرت سیدشرف الدین۔۔۔۔۔۔٧٩٢ھ ٭ حضرت شیخ عبدالصمد گنگوہی۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحمن چشتی۔۔۔۔۔۔١٠٤٠ھ ٭ حضرت شاہ جبار احمد سہیل تستری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٩١ ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین کشمیری۔۔۔۔۔۔١١٣٥ھ ٭ حضرت شیخ خواجہ سعد الدین مجددی۔۔۔۔۔۔١١٥٢ھ ٭ مغل حکمران اورنگزیب عالمگیرمجدد بارہویں صدی ہجری ٭ شیخ عظیم الدین بڑودہ
١٢ شوال المکرم
٭ حضرت ابو القاسم قرشی۔۔۔۔۔۔٤٦٥ھ ٭ حضرت ابو نصر محمد ہرولی۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭ حضرت قطب الدین سید کبیر۔۔۔۔۔۔٦١٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحمن مرعشی۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭ حضرت مخدوم اخی جمشید راجگیری ۔۔۔۔۔۔ ٨٠١ھ ٭ حضرت شاہ عبدالقدوس قلندر عرف شاہ قدن۔۔۔۔۔۔١٠٥٢ھ
١٣ شوال المکرم
٭ حضرت سید علی فیض آبادی۔۔۔۔۔۔٨٩٨ھ ٭ حضرت شاہ بڈھن چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ ٭ حضرت سید آدم بنوری۔۔۔۔۔۔١٠٥٣ھ ٭ حضرت سید امام علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٢٨٢ھ ٭ علامہ محمد فاروق چریاکوٹی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٧ھ٭ خواجہ غلام سدید الدین تونسوی (رہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٣٧٩ھ
١٤ شوال المکرم
٭ سیدتنا زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔۔۔۔۔۔٨ھ٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۔۔۔۔۔۔٦٨ھ ٭ حضرت بابو عبدالرحمن مدنی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥ھ ٭ حضرت عقبۃ الغلام بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٦٧ھ٭ حضرت محمد صبیح ابن سماک۔۔۔۔۔۔١٨٣ھ ٭ حضرت خواجہ ابو ہزیل بصمدی۔۔۔۔۔۔٢٣١ھ ٭ حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ مرعشی رکن الکعبہ۔۔۔۔۔۔٢٥٤ھ ٭ حضرت ابو یحییٰ زکریا نیشاپوری ۔۔۔۔۔۔٢٩٤ھ ٭ حضرت ابو اسحق ابو القاسم حکیم سمرقندی۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭ حضرت شیخ جعفر بن الیاس ۔۔۔۔۔۔ ٣٤٧ھ٭ حضرت ابو الحسن صوفی۔۔۔۔۔۔٣٥٠ھ ٭ حضرت شیخ موفق الدین مقدسی۔۔۔۔۔۔٦٢٠ھ ٭ حضرت شیخ شہاب الدین بغدادی۔۔۔۔۔۔٦٩١ھ ٭ حضرت ابو الفتح سمنانی ۔۔۔۔۔۔ ٧١٧ھ ٭ حضرت عیسیٰ والحق پنڈوی۔۔۔۔۔۔٨٤٦ھ٭ حضرت سید راجو قتال ۔۔۔۔۔۔ ٨٦٥ھ ٭ حضرت شاد ابراہیم بھکری۔۔۔۔۔۔٨٧١ھ ٭ حضرت سید محمد عبید مدنی۔۔
No comments:
Post a Comment